تم فقط میرے
تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر24
اس نے سر کو بڑے شریر انداز میں ہلاتے اور شیطانی مسکراہٹ، اپنے چہرے پر بکھیرتے ہوئے ، خود سے کہا اور پھر کھانے کی طرف اپنا دھیان لگایا۔
××××
کھانے کے بعد، اس نے تمیز سے برتن اٹھائے اور کچن میں جا کر سنک میں رکھے، اس کے بعد، وہ کچھ دیر تک پر سوچ انداز میں کھڑی ، کسی غیر مرئی نکتے کو گھورنے لگی، کچھ دیر اسی پوز میں کھڑے رہنے کے بعد اس نے کچن کی کیبنٹ کھولی، ایک بوتل نکالی، اس میں پانی بھرا اور مزے سے کچن سے باہر نکلی، اس نے منصوبہ بنایا تھا کہ وہ شام تک اپنے کمرے میں بند رہ کر سکون سے سوئے گی، پانی بھی وہ احتیاطاً ساتھ لے کر جارہی تھی کہ اسے اٹھنا نہ پڑے، اور پھر وہ اپنی امی کے سوالوں سے بھی تو بچنا چاہتی تھی۔
ویسے وہ اگر اپنی امی سے شام تک کی مہلت مانگ لیتی، تو اس کی امی نے دے ہی دینی تھی، انہوں نے، اسے کھا تھوڑی جانا تھا، فہمیدہ بیگم اتنی مہلت تو اسے دے ہی سکتی تھیں۔
مگر عنقا۔۔!! وہ اپنے بےکار دماغ کو لے کر کہاں جاتی۔۔!! اس محترمہ کا تو سچ میں دماغ ہی الٹا ہوا تھا، تبھی وہ اپنے آپ سے ہی، فضول میں، ایسے چَول منصوبے بنا رہی تھی اور
اپنی امی سے بچنے کے لیے ایسی الٹی ترکیبیں سوچ رہی تھی۔
××××
اس سے پہلے کہ وہ اپنے کمرے تک ، پہنچ پاتی۔۔ اس کی امی نے اسے روک لیا، جو خیر سے اسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
وہ ان کو اگنور کرتے ہوئے مزے سے آگے آگے چلنے لگی، وہ اس وقت بالکل بھی اپنی اماں حضور کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ پر ایسا ممکن نہیں تھا کہ معاملہ اس کی چاہت، اس کی مرضی کے مطابق طے پائے، سو اسے مجبوراً، اپنی امی کے روکنے پر ، ان کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔
"کھانا کھا لیا تم نے۔۔؟؟"فہمیدہ بیگم نے دانت پیستے ہوئے پوچھا، وہ اس کی، کچھ دیر پہلے کی گستاخانہ گفتگو پلس بدتمیزی ، بھولی نہیں تھی۔
"ج۔۔ج۔۔جی۔۔کھا لیا۔۔!!" اس نے ہکلا کر جواب دیا۔
"اب مجھے بتاؤ کہنٹم ادھر کیوں آئی ہو۔۔؟؟ دیکھو اگر کوئی گڑبڑ والی بات نہیں تھی یا تم صرف نارمل طریقے سے یہاں چند دن یہاں رہنے کے لیے آئی ہوتیں تو اب تک کہہ چکی ہوتیں۔۔!! لیکن معاملہ ، نارمل ہے ہی نہیں، یہ جو تم نے اپنا منہ ابھی تک بند رکھا ہوا ہے ناں۔۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ تم ہی اپنی بےوقوفی کے کوئی مظاہر دکھا کر آئی ہو۔۔!! اب سچ سچ پھوٹو۔۔کہ کیا بات ہوئی ہے۔۔؟؟" فہمیدہ بیگم کا اشتعال اور پریشانی دیکھنے لائق تھی۔
وہ اپنے دو بچے کھو چکی تھیں، وہ ان کی خوشیاں دیکھنے سے محروم رہی تھیں۔۔ اب وہ چاہتی تھیں کہ عنقا صحیح سلامت رہے، اور اپنے سسرال میں خوش رہے، تاکہ انہیں بھی اس کی طرف سے تسلی ہو۔۔!! تاکہ یہ بھی سکون سے رہ سکیں۔
عنقا ان کی یہ پریشانی محسوس تو کر سکتی تھی پر اسے سمجھنا اس کے بس کا کام نہ تھا، اسے تو بس اپنی فکر تھی، وہ اپنے کرتوت ، اپنی امی کو نہیں بتانا چاہتی تھی، لیکن بتائے بغیر بھی کب تک گزارا ہو سکتا تھا، سو اس نے سوچا کہ کیوں نہ بتا ہی دیا جائے۔۔!! کم سے کم اس کی ایک ٹینشن تو ختم ہوگی۔۔!! اور شاید اس کی امی کو بھی ذرا سکون ملے گا۔۔!! اس لیے اس نے گلا کھنکارا اور شروع ہوئی،
"امی۔۔ وہ میں عدیل کو کہہ کر آئی ہوں کہ وہ مجھے زہر لگتے ہیں اور مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا، بس اتنی سی بات ہے۔۔ آپ نے خواہ مخواہ ، دنیا ہلا کر رکھی ہوئی ہے۔۔پلیزآپ۔۔ اب مزید ٹینشن نہیں لینی آپ نے۔۔ اوکے۔۔ اور دیکھیں ، میں نے آپ کو سچی بات بنتا دی۔۔ اب آپ نے میری جو مرمت کرنی ہے ناں۔۔ وہ بعد میں کیجیے گا۔۔کیوں کے ابھی میں جا رہی ہوں سونے۔۔اور مجھے کل صبح تک کوئی بھی بالکل ڈسٹرب نہ کرے ، صبح تک کے لیے اللّٰه حافظ۔۔،بائے بائے، ٹا ٹا،۔۔" وہ جلدی جلدی ایک سانس میں ساری بات کہتی وہاں سے بھاگ گئی، اور کمرے میں جا کر، اپنی وہی پانی کی بوتل تکیے کے ایک طرف ٹکا کر خود بھی وہاں دراز ہوئی۔
دوسری طرف، اس کی امی اس کی باتیں سن کر خوب جلیں، افسردہ ہوئیں، کیوں کہ اس کے علاؤہ، وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں۔
ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ عنقا کے کرتوت اس کے بابا کو بتادیں مگر پھر ان کے پریشان ہونے کا خیال کرتے ہوئے انہوں نے، یہ بات سلیمان صاحب کے علم میں لانے کا ارادہ ترک کیا، اور خود ان کے لیے کھانا گرم کرنے چلی گئیں، کیوں ان کے گھر آنے کا وقت تھا اور فہمیدہ بیگم کی عادت تھی کہ ان کے آنے سے پہلے وہ ہر چیز تیار رکھتی تھیں،،، کاش عنقا بھی عدیل کی ایسے ہی فکر کرتی۔۔!! اس کی امی کے دل میں ارمان سا جاگا۔
××××
Continue..
بچو بچو۔۔!! آج میں سے سچ میں نے لانگ ایپیسوڈ دینی تھی، اس لیے پہلے سے پیجز پر بھی لکھ کر رکھی تھی، سوچا کہ ایسے جلدی جلدی کمپوز کرلوں گی، لیکن ابو کی موجودگی میں موبائل کو ہاتھ لگانے پر شدید بیستی ہوئی۔۔ اور پھر امی کے کچھ کہہ دینے پر، میں نے غصے میں پیچز پھاڑ کر، ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیے۔۔ ہمیشہ کی طرح اج وی اتنی سی ایپی پر گزارا کریں۔۔
سچی۔۔!! آپ کی قسمت میں ہی نہیں میرے ہاتھوں لانگ ایپی پڑھنا۔۔